Allama Iqbal Student Poetry | Students Shayari

Allama Iqbal Poety Student: Allama Muhammad Iqbal is the national poet of Pakistan. He wrote poetry almost any aspect of life. Most of his poetry is for young generation. He wrote some poems for children in his book Bang e Dra. Some famous poems are Aik Makra aur Makhi, Aik Pehaar aur Gulehri and Aik Gaye aur Bakri. In these poems Iqbal teaches the children the moral values and way of living. Let's describe Allama Iqbal Student Poetry.

 Allama Iqbal Student Poetry

If children read these poems they will definitely like it, then they wish to read the other poetry of Iqbal after reading the poetry of Iqbal they will become optimist, and when the will become optimist no one could beat them in any field of life. This was Iqbal who gave us the idea of Pakistan when people were hopeless. he gave us the direction of life.
So, I think if children will read Iqbal they will pay major role for the development of our beloved country. Some Poems for children are.


Allama Iqbal Student Poetry

Allama Iqbal Student Poetry - Sitaron se aagy

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہيں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہيں
تہی ، زندگی سے نہيں يہ فضائيں
يہاں سينکڑوں کارواں اور بھی ہيں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشياں اور بھی ہيں
اگر کھو گيا اک نشيمن تو کيا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہيں
تو شاہيں ہے ، پرواز ہے کام تيرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہيں
اسی روز و شب ميں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تيرے زمان و مکاں اور بھی ہيں
گئے دن کہ تنہا تھا ميں انجمن ميں
يہاں اب مرے رازداں اور بھی ہيں

***************
خردمندوں سے کيا پوچھوں کہ ميری ابتدا کيا ہے
کہ ميں اس فکر ميں رہتا ہوں ، ميری انتہا کيا ہے

اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے ميں
تو اقبال اس کو سمجھاتا مقام کبريا کيا ہے

***************

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا


زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا

گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا

کبھی جو آوارۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں آ بسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خار زار ہوگا

سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پر استوار ہوگا

نکل کے صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا

کیا مرا تذکرہ جو ساقی نے بادہ خواروں کی انجمن میں
تو پیر مے خانہ سن کے کہنے لگا کہ منہ پھٹ ہے خار ہوگا

دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا ہے جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا

تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

سفینۂ برگ گل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا سے پار ہوگا

چمن میں لالہ دکھاتا پھرتا ہے داغ اپنا کلی کلی کو
یہ جانتا ہے کہ اس دکھاوے سے دل جلوں میں شمار ہوگا

جو ایک تھا اے نگاہ تو نے ہزار کر کے ہمیں دکھایا
یہی اگر کیفیت ہے تیری تو پھر کسے اعتبار ہوگا

کہا جو قمری سے میں نے اک دن یہاں کے آزاد پاگل ہیں
تو غنچے کہنے لگے ہمارے چمن کا یہ رازدار ہوگا

خدا کے عاشق تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا

یہ رسم برہم فنا ہے اے دل گناہ ہے جنبش نظر بھی
رہے گی کیا آبرو ہماری جو تو یہاں بے قرار ہوگا

میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شہہ نشاں ہوگی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہوگا

نہیں ہے غیر از نمود کچھ بھی جو مدعا تیری زندگی کا
تو اک نفس میں جہاں سے مٹنا تجھے مثال شرار ہوگا

نہ پوچھ اقبال کا ٹھکانہ ابھی وہی کیفیت ہے اس کی
کہیں سر راہ گزار بیٹھا ستم کش انتظار ہوگا

******************

ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک


ہوا نہ زور سے اس کے کوئی گریباں چاک
اگرچہ مغربیوں کا جنوں بھی تھا چالاک

مے یقیں سے ضمیر حیات ہے پرسوز
نصیب مدرسہ یا رب یہ آب آتش ناک

عروج آدم خاکی کے منتظر ہیں تمام
یہ کہکشاں یہ ستارے یہ نیلگوں افلاک

یہی زمانۂ حاضر کی کائنات ہے کیا
دماغ روشن و دل تیرہ و نگہ بیباک

تو بے بصر ہو تو یہ مانع نگاہ بھی ہے
وگرنہ آگ ہے مومن جہاں خس و خاشاک

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک

جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
مرے کلام پہ حجت ہے نکتۂ لولاک

******************

Find More Allama Iqbal Poetry

Post a Comment

0 Comments